دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ سے پہلے تک جاپانی قوم کی پہچان ایک متشدد اور جنگجو قوم کی حیثیت سے ہوتی تھی۔ اگست 1945 میں جاپان کے دوعظیم الشان شہروں پر امریکہ کی طرف سے بمباری نے پوری قوم کو ہلاکر اور بدل کر رکھ دیا۔ اس حادثہ کے بعد جاپانیوں نے دیکھا کہ اب سیاسی اور جنگی برتری کی کوشش ان کے لئے اس وقت بے معنی اور بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
ایسا نہیں کہ جاپانی قوم فوجی برتری نہیں چاہتی تھی یا اس کے دل میں حملہ آوروں کے لئے ہمدردی اور پیار کا جزبہ جاگ اٹھا تھا۔ بلکہ جاپانی قوم کی حقیقت پسندی کی فطری عادت اور وقت کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کی صلاحیت نے انہیں مجبور کیا کہ وہ جنگی میدان کو چھوڑ کر پرامن میدانوں میں اپنی محنت صرف کرنا شروع کردیں۔ سیاسی اور فوجی برتری نہ سہی، لیکن دوسرے میدانوں میں دنیا سے اپنی کامیابی کا لوہا منوائیں۔
لہذا پوری جاپانی قوم نے فورا جنگجوئی چھوڑ کر صنعتی اور اقتصادی میدانوں کی طرف اپنے ذہنوں کو موڑ دیا اور نتیجہ یہ تھا کہ صرف چند دہائیوں میں ہی جاپان دنیا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن کر ابھرا۔ جاپان میں قدرتی میٹیریل بہت زیادہ نہ ہونے کے باؤجود وہ دنیا میں اپنی بنائی ہوئی مشینوں اور ٹکنالوجی کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہ دنیا کے دوسرے ملکوں سے کچا میٹریل منگاتے ہیں اور اپنی قابلیت سے اسے اعلی قسم کی مشینوں میں تبدیل کرکے سپلائی کردیتے ہیں۔
اب اگر ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے حالیہ سیاسی دھچکوں سے ان کی زندگیاں برباد ہوگئی ہیں۔ ان کی پسندیدہ سیاسی پارٹی کے نہ جیتنے سے ہندوستان میں ان کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ جبکہ اگرغور کریں تو ہندوستانی مسلمانوں کی اقتصادی اور سماجی حالت پہلے سے ہی بد سے بدتر کی طرف مستقل بڑھتی چلی جارہی ہے۔ آج اعلی عہدوں پر، بزنس میں یا دوسرے صنعتی میدانوں میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ کے برابر ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے گوشت پر قانونی سختی سے مسلمان دوسری تمام صنعتوں میں حصہ داری سے محروم ہوگئے ہوں۔
اس ملک میں ایسے بہت سارے کام کے میدان ہیں جن میں سیاسی دخل اندازی بالکل نہیں ہے اور مسلماں چاہیں تو اپنی سوچ کو بدل کر ان میدانوں میں محنت کرکے اپنی مخصوص اور امتیازی جگہ بنا سکتے ہیں۔
جاپان کے بارے میں آپ کہ سکتے ہیں وہ پوری قوم کا مسئلہ تھا اور اقلیت کے مسائل ان کے ساتھ نہ تھے۔ دنیا میں دوسری ایسی قوموں کی مثالیں بھی موجود ہیں جنہوں نے اقلیت میں ہونے اور ناسازگار حالات ہونے کے باؤجود دنیا پر اپنا سکہ جمایا ہوا ہے۔
ایک دوسری قوم جو ہزاروں سالوں سے دنیا بھر میں ستائی جارہی تھی۔ اس کا اپنا کوئی ملک بھی نہیں تھا۔ اسے برطانیہ سے نکالا گیا، یوروپ میں زبردست ظلم و ستم اور نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا۔ خود امریکہ میں بہت دنوں تک ان پر اور ان کے بچوں پر مزاحیہ جملے کسے جاتے تھے۔ لیکن ان تمام ناسازگار حالات کے باوجود اس قوم نے ان مواقع کو تلاش کیا جہاں وہ ترقی کرسکتے تھے اور آج دیکھئے پوری دنیا پر ان کا راج ہے۔ آج ہالی ووڈ، وال سٹریت اور دوسرے بزنس کے میدانوں میں ان کی کامیانی نمایاں ہے۔ ان کے صرف پانچ ہزار افراد واشنگٹن میں جمع ہوکر امریکہ کی پالیسی پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ یہ سب ان کے علمی، تکنیکی اور اقتصادی میدانوں میں ترقی کے سبب ہی ممکن ہوا ہے۔ اور یہ سب نہایت ناسازگار حالات میں ہوا ہے۔
اسی قوم کے ایک بہت بڑے سائنسداں”البرٹ آئنسٹائین” کی ہٹلر کی جرمنی نے قدر نہیں کی تو وہ امریکہ آگئے۔ اور کچھ دنوں کے بعد امریکی صدر کو خط لکھ کر اپنی نیوکلیائی تحقیقات کے بارے میں خبر دی۔ پھر بعد میں ان کی انہیں تحقیقات سے کس طرح دنیا کی جغرافیائی اور سیاسی شکل بدلی اور علاقائی قوت کا توازن بدلا یہ گہرے مطالعہ سے تعلق رکھتا ہے۔ کیا امریکہ کی کوئی اکثریت یا سیاسی پارٹی ان کے اس علمی کارنامہ کو چھپا سکتی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، ورنہ سیکڑوں مثالیں ایسی ہیں جہاں اقلیت کی کامیابی اتنی بڑی تھی اور اکثریت کا اس میں اتنا بڑا فائدہ تھا کہ کوئی بھی اکثریت اس کو چھپانے یا دبانے کی حماقت نہیں کر سکتی۔
سلطان عبد الحمید کے زمانہ میں اسی قوم کے ایک نمائندے نے حاضر ہوکر فلسطین کے پاس ایک چھوٹی سی زمین مانگی تاکہ وہ وہاں اپنا ملک بناسکیں اور سلطان عبد الحمید نے بڑی شدت کے ساتھ ان کو منع کردیا۔ اس قوم نے نہ تو دھرنا دیا، نہ مظاہرہ کیا، نہ جزباتی بیان بازی کی اور نہ لڑائی کی۔ تو کیا کیا؟ خاموشی کے ساتھ اپنی قوم کی ترقی کے لئے کام اور لمبا انتظار۔ اس کے بعد آج وہی قوم دراصل پورے مشرق وسطی پر غیر مرئی صورت میں راج کر رہی ہے۔
خلاصہ یہ کہ کیا ہندوستانی مسلمان اس ناخوشگوار ماحول سے سبق لے کر اپنے ذہن اور طاقت کو علمی، صنعتی اور اقتصادی میدانوں میں نہیں لگا سکتے؟ ان کو کون روکتا ہے ترقی سے۔ ایک عظیم قوم کو اپنی عظمت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟
اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟
سب سے پہلے تو سیاست میں عظیم حصہ داری کا بھوت اپنے سر سے اتار دیں۔ آزادی کے اتنے سالوں کے بعد اب تو اتنی سمجھ آجانی چاہئے کہ صرف سیاست میں حصہ داری سے ہی قوم کا کوئی بڑا فائدہ نہيں ہونے والا۔
سماجی فضا کو ناخوشگوار حالات سے بچانے کے لئے اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ بہت ہی اعلی اخلاق کا مظاہرہ اور ان کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرنا چاہئے۔ کسی بھی ٹکراؤ اور جھگڑے کی صورت کو ہر حال میں ٹالنا اور کسی کے بہکاوے میں نہ آنا چاہئے۔ چند عناصر بلا شبہہ چنگاری لے کر گھوم رہے ہیں، اس چنگاری کو مزید ہوا نہ دیکر خاموشی، صبر اور پرامن طریقے سے اس کو بجھانے کی کوشش ہی وقت کا تقاضا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اپنی یا اپنوں کی حفاظت نہ کی جائے یا بزدلی کا مظاہرہ کیا جائے ۔ بلکہ جھگڑے کی ہرصورت کو ہر حال میں اور ہر جگہ ٹالا جائے۔
تیسری سب سے بڑی بات یہ کہ اپنی ساری قوت کو پرامن میدانوں میں ترقی کے لئے لگا دیا جائے۔ قوم کے رہنما جن کے پاس وسائل مہیا ہیں وہ اس کو تنظیمی طور سے اور اچھے طریقہ سے انجام دے سکتے ہیں۔ لوگوں کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔ مشاورتی مراکز قائم کرکے لوگوں کو مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ لوگوں کے سامنے ترقیاتی خاکہ پیش کرسکتے ہیں۔
علمی اور اقتصادی میدانوں میں اس حد تک ترقی کی جائے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی تصویر بدل جائے۔ ہمیں ایک دو نہيں بلکہ بہت سارے البرٹ آئنسٹائین اور عبدالکلام کی ضرورت ہے جو اپنے علم اور کامیابی سے پورے ملک اور قوم کی تاریخ بدل دیں۔
کیا آپ اس کے لئے تیار ہیں؟
اگر ہاں ہے تو دوسرے حلقہ میں علمی اور اقتصادی میدانوں میں ترقی کی جدید تاریخی مثاليں اور دستیاب مواقع پر لکھا جا سکتا ہے، ان شاء اللہ۔