ہم اکثر بے جا الجھنوں میں اپنا وقت ضائع کردیتے ہیں۔ بے سود اور منفی فکریں ہمیں ہمارے ضروری کاموں سے بھی روکے رکھتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کئی کئی گھنٹہ سوچتے رہتے ہیں۔ کہیں کسی سے کوئی ان بن ہوگئی، کوئی منفی خبر سامنے آگئی، کسی نے کوئی نازیبا بات کہہ دی، کوئی نقصان ہوگيا، وغیرہ۔ ہم ایسی سوچ میں کئی کئی گھنٹے اپنے آپ کو اور اپنے ذہن کو پریشان رکھتے ہیں۔ خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور اپنے اقرباء کو بھی پریشان رکھتے ہیں۔
بہت سارے احباب تو ایسی چیزوں کے بارے میں سوچ کر پریشان رہتے ہیں جو کبھی واقع ہی نہیں ہوئیں اور نہ ہی شاید کبھی واقع ہونے والی ہیں۔ وقت کے ساتھ جب یہ پتہ چلتا ہے کہ جو سوچا تھا ہوا ہی نہیں، تب افسوس ہوتا ہے کہ بے جا اپنے آپ کو اس کے بارے میں سوچ سوچ کر جلایا، تڑپایا، وقت ضائع کیا۔
کسی ناگہانی کا خوف، بچوں سے متعلق اندیشے، نوکری کے بارے میں بے جا فکر، اور اس طرح کی بہت ساری بے جا فکریں ہیں جو ہم میں سے اکثر کو پریشان رکھتی ہیں۔
ایک دوست نے بتایا کہ ان کی بے جا فکر اور الجھن اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ جب ان کے پاس کوئي وجہ نہیں ہوتی تو یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ کہیں سر کے اوپر چھت ہی نہ گر جائے یا بجلی کے تار میں آگ نہ لگ جائے۔ اگر دروازے پر دستک ہو تو ایسا لگتا ہے کہ کسی دشمن ہی کی آمد ہے۔
اسی طرح ایک دوست نے بتایا کہ اگر انہیں کوئي کچھ کہہ دیتا ہے تو بھی وہ کئی گھنٹوں کے لئے پریشانی اور سوچ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
سوچ اور فکر ضروری تو ہے لیکن صرف مثبت سوچ ہی کار آمد ہے۔ منفی سوچ ہمیں الجھنیں دیتی ہے اور پریشان رکھتی ہے جس کی وجہ سے جو کام ہو سکتے تھے وہ بھی نہیں ہو پاتے۔
اس کا سب سے اچھا علاج ہے اپنے مقصد کا تعین۔ کیا ہمارے لئے یہی تعلقات، یہی لوگ، یہی چھوٹی چھوٹی باتیں سب کچھ ہیں۔ کیا دنیا میں ہمارا یہی مقصد اور زندگی سے یہی مقصود ہے۔ خدا نے ہر ایک کو اس دنیا میں خاص صلاحتیں عطا کی ہیں۔ خدا تعالی نے ہم کو اور آپ کو نہ تو بے جا پیدا کیا اور نہ ہی بے جا خیالات اور الجھنوں کا شکار ہوکر اپنی صلاحیتوں کو برباد کرنے کے لئے اس دنیا میں بھیجا ہے۔
ہمیں اپنی صلاحیت کے لحاظ سے اپنا مقصد متعین کرنا چاہئے اور پھر اسے حاصل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ مقصد دنیوی اور اخروی دونوں ہوسکتے ہیں۔
اخروی مقاصد جیسے آپ کو نمازیں پڑھنی ہیں، اللہ سے قریب تر ہونا ہے، تلاوت قرآن کرنی ہے، لوگوں کی مدد کرنی ہے، بے سہاروں کا سہارا بننا ہے، والدین کی خدمت کرنی ہے۔
دنیوی مقاصد جیسے کوئی نیا ہنر سیکھنا ہے، اپنی تجارت کو فروغ دینا ہے، نیا گھر بنانا ہے، صرف حلال کمائی ہی حاصل کرنی ہے اور صرف جائز طریقوں پر ہی صرف کرنا ہے۔ اپنی نوکری میں آگے بڑھنا ہے یا اپنے بچوں کے لئے مناسب انتظام کرنا ہے۔
اگر آپ بڑے مقاصد کو مد نظر رکھیں گے اور اس کے لئے کوشاں رہیں گے تو یہ چھوٹی چھوٹی بے جا فکریں اور الجھنیں ان شاء اللہ اپنا راستہ دیکھیں گی۔ آپ مشغول ہوں گے آپکے پاس اس بے کار کی سوچوں اور الجھنوں کے لئے وقت ہی نہیں ہوگا۔ آپ کی صحت بھی اچھی رہے گی اور دل کو بھی اطمینان اور سکون رہے گا۔
احمد صہیب صدیقی ندوی