پیر, دسمبر 23, 2024
Google search engine
صفحہ اولUncategorizedتعلیم – بچوں کا پیدائشی حق ہے

تعلیم – بچوں کا پیدائشی حق ہے

تعلیم میں انوسٹ کرنا سب سے بہتر فائدہ کا سودا ہے

بنیامین  فرانکلن ‎

آج ہندوستانی مسلمانوں کی پہچان غربت اور جہالت سے کی جاتی ہے۔ اکثریت غیر پڑھی لکھی اور بے روزگار ہے۔ شاید یہی بے روزگاری اور غربت ان مسلم نوجوانوں کو غلط راہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اور پوری قوم کی بدنامی کا سبب بنتی ہے۔

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور بقا کے لئے سب سے ضروری چیز ہے، اور آج کی دنیا میں جس کا سارا دارومدار ہی علم و معرفت اور سائنس اور ٹکنالوجی پر ہے، بغیر تعلیم کے کوئی بھی قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ میں ایک تعداد کے لحاظ سے بہت چھوٹی سی قوم وہاں کی اقتصادیات اور مختلف اہم صنعتوں پر قابض ہے۔ ہالی ووڈ کی فلم انڈسٹری پر اس کا راج ہے۔ نیوزچینلس اور اخبارات ان کے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان کی اعلی تعلیمی قابلیت اور بے لگن محنت کا نتیجہ ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ کسی خاص قوم کی اتباع کی جائے یا ان سے مشابہت اختیار کی جائے۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر ہندوستانی مسلمانوں کو ترقی کرنا ہے اور ہندوستان کی اقتصادی سرگرمیوں کا فعال حصہ بننا ہے تو ان کے بچوں اور بچیوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنا ہی ہوگا۔ آج کے تعلیم یافتہ بچے کل اپنے خاندان اور سوسائٹی کی زندگیاں سنوار سکتے ہیں۔

بہت سے مسلمان اپنی اقتصادی حالت کا بہانہ کرکے اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجتے، ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بچوں کو پڑھانے کا پیسہ نہیں ہے، یہ کافی حد تک غلط بات ہے۔ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے گاؤں گاؤں اور شہر شہر سکولوں کا جال بچھا ہوا ہے، جہاں صرف تعلیم ہی نہیں ملتی ساتھ ساتھ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ کتنے والدین بچوں کو صرف وظیفہ کی غرض سے سکول بھیجتے ہیں اور انہیں اپنے بچوں کی تعلیم یا کارکردگی سے کوئی خاص سروکار نہیں ہوتا۔ لہذا "جیسی نیت ویسی برکت”۔

آج بچوں کی تعلیم کی خاطر والدین کو قربانیاں دینی ہوگی۔ انہیں اپنے ضروری اور روزمرہ کے اخراجات میں کمی کرکے تعلیمی اغراض میں خرچ کرنا ہوگا۔ ان کا لگایا ہوا ایک ایک پیسہ گھر، خاندان اور اگلی نسلوں کی زندگیاں سنوار دے گا۔ یہ سب سے بہتر انوسٹمنٹ ہوگا۔

والدین یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں پڑھائی اچھی نہیں ہوتی لہذا ایسے سکولوں میں بچوں کو بھیجنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ سب سے پہلے تعلیم برائے تعلیم کا مسئلہ ہے اور اچھی یا خراب تعلیم کی بات تو بعد میں آتی ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے سرکاری اسکولوں میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھا اور اپنے میدانوں کامیاب ہوئے اور نام کمایا۔

ہندوستانی مسلمانوں کی غربت، جہالت اور پچھڑے پن سے چھٹکارہ پانے کی راہ میں تعلیم سب سے پہلا قدم ہے۔ اگر ہم تعلیم کی اہمیت کو آج نہیں سمجھیں گے تو مستقبل ہمارے بچوں کے ہاتھ سے نکل جائیگا، جس طرح حال میں ہم پچھڑے ہیں اسی طرح مستقبل میں بھی غریب ونادار اور پچھڑے ہی رہیں گے۔

آج ضرورت ہے کہ آپ خود بھی اپنے بچوں کو سکول بھیجیں اور دوسروں کو بھی مجبور کریں کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں۔ یہ ان کا پیدائشی حق ہے۔ بچوں کو تعلیم دلاکر ان پر بہت بڑا احسان کریں گے۔ یہ آپ صرف اپنے تک محدود نہ رکھیں، اس کی تبلیغ کریں، لوگوں کو باور کرائیں، ان کو تعلیم کی اہمیت سمجھائیں اور بتائیں کہ بچوں کو جاہل رکھ کر ان پر اور سارے معاشرے پر ظلم نہ کریں۔ کل قیامت میں انہیں جواب دینا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا

- Advertisment -
Google search engine

سب سے زیادہ پڑھے جانے والے

حالیہ کمنٹس