تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں انسانیت کی تصویر ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ افراد اور معاشرے کی حالت بھی بدلتی رہتی ہے۔ بادشاہتوں کا عروج و زوال، خیالات کا جنم و فنا اور انسان کی سوچ کا ارتقاء یہ سب اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسان کی تقدیر ایک متحرک عمل ہے۔
—————
عالی شان تخت پر جلوہ افروز ‘بادشاہ’ نگاہوں کا مرکز تھا۔ جواہرات سے مزین تاج اس کی شان میں چار چاند لگا رہا تھا۔ دربار میں حاضر امراء اور وزیر، قیمتی لباسوں میں ملبوس، بادشاہ کے احترام میں سر جھکائے کھڑے تھے۔ نہایت قیمتی برتنوں میں شربت اور میوے پیش کیے جا رہے تھے۔ دیواروں پر نفیس نقاشیوں اور قیمتی قالینوں نے دربار کی خوبصورتی میں اضافہ کیا ہوا تھا۔ باہر سے آنے والے سفیر، تحفے اور تحائف پیش کر رہے تھے۔ ہوا میں خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ چاند بھی آج موقع دیکھ کر باہر نکل آیا تھا، اور ستارے بھی جھنڈ بنا بنا کر دنیاوی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
امیر معاویہ کا دربار نہایت مصروف جگہ تھی۔ وزیر اور اہلکار اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ عوام کے نمائندے اپنے مسائل لے کر آئے تھے۔ ہر طرف کام کا شور تھا۔ بادشاہ کے سامنے ایک میز پر دستاویزات پڑے تھے۔ وہ ان پر نظر دوڑا رہے تھے اور کبھی کبھی ان پر نوٹ لکھوا رہے تھے۔
ایک وزیر نے امیر معاویہ سے کہا: حضور، آج کل آرمینیا پر قابض کمانڈر سابور نے اپنا سفیر آپ جناب کی خدمت میں بھیجا ہے۔ اور بازنطینی سلطنت کے بادشاہ قسطنطين نے بھی اپنا سفیر آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ دونوں آپ سے مدد کے طلب گار ہیں۔
سن 46 ہجری کی داستان ہے۔ آرمینیا کے ایک کمانڈر سابور نے اس کے ایک حصہ پر قبضہ جما کر بازنطینی سلطنت سے چھٹکارہ حاصل کرلیا تھا۔ قسطنطين اور سابور کے دمیان جھڑپیں ہوتیں اور بہرحال بازنطینی سلطنت کا پلہ بھاری رہتا تھا۔ خلافت راشدہ کے دوران آرمینیا کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، لیکن اخیر کے پر فتن دور میں وہاں بغاوت ہوئی اور انہوں نے اپنے کو الگ کر لیا۔ پھر سن 73هـ موافق سن 692م میں عبد الملك بن مروان نے اپنے بھائی کو بھیج کر وہ علاقے دوبارہ حاصل کرلیے۔
ادھر امیر معاویہ اسلامی مملکت کے امیر کی صورت تخت نشیں ہو چکے تھے۔
اس وقت کے بازنطینی سلطنت کے بادشاہ قسطنطين نے اپنے سفیر لاندرا کو اور کمانڈر سابور نے اپنے سفیر سرجي کو امیر معاویہ کے دربار میں بھیجا تھا۔ سابور بادشاہ قسطنطين کے خلاف امیر معاویہ سے مدد طلب کررہا تھا اور بادشاہ قسطنطين سابور کے خلاف معاونت کے لیے درخواست گزار تھا۔
امیر معاویہ نے پہلے سرجی کو اور پھر لاندرا کو حاضر ہونے کی اجازت دی۔
سرجی نے جب لاندرا کو دیکھا تو اس کی تعظیم میں کھڑا ہو گیا۔ امیر معاویہ نے یہ دیکھ کر سرجی کو زور سے پھٹکار لگائی کہ یہ کیا کررہے ہو۔ جب تمھارا یہ حال ہے تو تمھارے آقا کا کیا حال ہوگا۔
سرجی نے شرمندگی سے کہا، معاف کریں حضور، عادت سے مجبور ہو گیا تھا۔
امیر معاویہ نے کرخت انداز میں لاندرا سے سوال کیا: بولو یہاں کیوں آئے ہو؟
لاندرا نے جواب دیا: حضور، میرے بادشاہ نے مجھے بھیجا ہے اور آپ سے درخواست کی ہے کہ اس باغی کی بات کو نہ سنیں۔ یہ باغی ہے۔ اور میں بادشاہ کی طرف سے مامور ہوں۔ آپ ایک باغی اور بادشاہ کو ایک خانہ میں نہ رکھیں، اور اس کی ہرگز مدد نہ کریں۔
امیر معاویہ نے اپنی شان اور قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواب دیا: دیکھو، تم دونوں ہی ہمارے دشمن ہو۔ جس کا خراج زیادہ ہوگا، ہم اسی کی حمایت کریں گے۔
ذرا تصور کریں، ایک سالہا سال پرانی عظیم سلطنت کا بادشاہ ایک نبستا نئی مملکت سے مدد کے لئے عرضداشت ہوتا ہے۔
یہ سن کر لاندرا دربار سے باہر نکل گیا۔
اگلے دن دونوں پھر حاضر ہوئے۔ لیکن آج سرجی لاندرا کی تعظیم میں کھڑا نہیں ہوا اور بیٹھا ہی رہا۔ شاید وہ سمجھ گیا تھا کہ یہاں ہم دونوں ہی برابر ہیں۔
دوسرے دن لاندرا نے پھر اپنی درخواست دہرائی۔
امیر معاویہ نے جواب دیا: اگر تم اپنی پوری سلطنت کا خراج ہمیں دے دو تو ہم تمھیں ایک سلطنت رہنے دیں گے، ورنہ یہ امتیاز بھی ہم تم سے چھین لیں گے۔
لاندرا اس جواب سے ششدر رہ گیا۔ نہایت عاجزی اور پریشانی کی عالم میں عرض کیا: مطلب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ لوگ ہی طاقتور ہیں اور ہم لوگ اب صرف وہم و گمان کی چیز ہیں۔ ہمارا رب ہماری مدد کرے گا۔
پھر وہ اجازت طلب کرکے وہاں سے نکل گیا۔
یہ واقعہ اموی دور کے بالکل ابتدائی زمانہ کا ہے۔ اموی دور اسلامی تاریخ کا ایک شاندار باب ہے۔ اس دور میں اسلامی مملکت نے اپنی وسعت اور عظمت کے عروج کو چھو لیا تھا۔ اموی بادشاہوں نے اپنی حکمت عملی اور فوجی مہارت کی بدولت وسیع علاقوں کو فتح کیا اور ایک وسیع اسلامی سلطنت قائم کی۔
اس دور میں اسلامی مملکت کی شان و شوکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس دور میں اسلامی فوجیں افریقہ سے لے کر جنوب ایشیا تک اور یورپ سے لے کر وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اموی دارالحکومت دمشق دنیا کا سب سے بڑا اور شاندار شہر تھا۔ اموی خلفاء نے فن تعمیر اور ثقافت کو فروغ دیا اور شاندار محلات، مساجد اور باغات بنوائے۔
اموی دور میں اسلامی سائنس اور ادب نے بھی بہت ترقی کی۔ اس دور میں مسلمان سائنسدانوں نے ریاضی، فلکیات اور طب کے میدان میں بہت اہم دریافتیں کیں۔ اموی دور میں اسلامی ثقافت کا اثر یورپ اور ایشیا کے دیگر ممالک پر بھی پڑا۔ اموی دور میں اسلامی مملکت کی شان و شوکت کا یہ عالم تھا کہ اس دور کو اسلامی تاریخ کا عظیم دور کہا جاتا ہے۔
(کتاب: تاریخ مختصر الدول – باب: معاویہ بن ابی سفیان)
صهيب ندوي
[Email: Laahoot.Media@gmail.com]
لاہوت اردو ڈائجسٹ
سوشل میڈیا پر ہم سے جڑیں:
https://www.facebook.com/LaahootUrdu
https://x.com/LaaHoot
https://www.youtube.com/@LaahootTV