-
آخر کیوں اسلامی عہد زریں سے پہلے سائنسی علوم کبھی عملی شکل اختیار نہ کر سکے، اور صرف کتابوں کی زینت بنے رہے، اس کی کیا وجہ تھی؟
-
ٹکنالوجی کا وجود اسلام کی آمد کے بعد ہی کیوں ہوا، دنیا تو ہزاروں سال سے آباد تھی؟
-
تجرباتی سائنس کس کی دین ہے۔
-
یہ قرآن ہی ہے جو علم کو عمل کی صورت اختیار کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ خدا کی کائنات پر ریسرچ کرنے پر اکساتا ہے۔ اشیاء کی خواص جاننے کا راستہ کھولتا ہے۔
-
قرآن کہتا ہے کہ خدا سے زیادہ ڈرنے والے وہ ہیں جو زیادہ علم رکھتے ہیں۔
-
عقیدہٴ توحید نے تو فکر وتحقیق کے دروازے مکمل وا کردئے
عقیدہٴ توحید اسلام کا بنیادی اور اہم ترین عقیدہ ہے۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر پوری اسلامی تعلیمات کی عمارت قائم ہے۔ اس عقیدے کے مطابق صرف ایک ہی خدا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ لیکن کیا اس عقیدہٴ توحید کا تعلق سائنسی تحقیقات سے بھی ہے۔
کائنات کا مطالعہ عبادت ہے۔ اسلام میں کائنات کا مطالعہ اور اس کے رازوں کو جاننے کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ نظریہ انسان کو یہ بتاتا ہے کہ وہ اللہ کی تخلیق شدہ چیزوں کو سمجھ کر اس کی عظمت کو پہچان سکتا ہے۔
قرآن مجید میں بار بار انسان کو تفکر اور تدبر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سے نوازا ہے تاکہ وہ کائنات کے عجائبات کو دیکھے، سوچے اور سمجھے۔ قرآن کا یہ حکم انسان کو صرف نظریاتی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر بھی سوچنے پر اکساتا ہے۔ یہی تفکر اور تدبر سائنسی تحقیق کی بنیاد ہے۔
جب انسان کائنات کے مختلف مظاہر کو دیکھتا ہے تو اس کے دل میں سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ سب کیسے ہوا؟ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟ یہی سوالات انسان کو تحقیق کی طرف لے جاتے ہیں۔ قرآن میں موجود آیات انسان کو کائنات کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہیں جیسے آسمانوں کی تخلیق، ستاروں کی چمک، زمین کی تہیں اور اس میں موجود خزانوں کا وجود۔ یہ سب کچھ انسان کو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت پر غور کرنے پر مجبور تی ہیں۔
اسلامی تاریخ میں مسلمان سائنسدانوں نے تفکر اور تدبر کی روشنی میں بہت سی اہم دریافتیں کیں۔ انہوں نے طب، ریاضی، فلکیات اور دیگر علوم میں نمایاں کام کیا۔ ان کی یہ کامیابی قرآن میں دی گئی دعوت کے نتیجے میں ہی ممکن ہوئی۔
آج کے دور میں بھی سائنسی تحقیق کے لیے تفکر اور تدبر کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ سائنسدانوں کو نئی ایجادات اور دریافتوں کے لیے مسلسل سوچنا اور تجربات کرنا پڑتا ہے۔ قرآن کا یہ حکم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سائنس اور ایمان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
اسلامی عہد زریں میں خالص توحید کا بول بالا تھا۔ طلب علم کی پیاس تھی۔ اسلامی تہذیب اپنے عنفوان شباب پر تھی۔ اسلامی شہر علم وادب کا گہوارہ تھے۔ قرآن نے دلوں کو روشن کر رکھا تھا۔ مساجد و مدارس و مکاتب ہر جگہ علم وحکمت کی باتیں ہوتی تھیں اور ان پر مباحثے ہتے تھے۔
قرآن کی آیتوں نے پڑھنے لکھنے والوں میں جستجو کی آگ بھڑکا رکھی تھی۔ قرآن کی آیتیں لوگوں کو عجائب کون میں غور و خوض کی دعوت دیتی تھیں۔ آسمان و زمیں سے لیکر چھوٹی چھوٹی خدائی مخلوق تحقیق کا موضوع تھی۔ اشیاء کے خواص کا پتہ لگا کر خدا کی عظمت کو سمجھنے کا موقع ملتا تھا۔ یہ ایک ایسا جذبہ تھا جس کا بدل تاریخ میں کہیں نہیں تھا۔
اسلامی عہد زریں میں، اسلامی مملکت علم ومعرفت کا ورک شاپ تھی۔ علماء پچھلی تہذیبوں کے علوم کو حاصل کرتے اور پھر اسے اور آگے بڑھاتے۔ اس طرح سائنسدانوں نے بہت سارے علمی اور تحقیقی مواد دنیا کے سامنے پیش کئے۔
اسلامی عہد زریں میں اسلام کے شہر دیو ہیکل کتب خانوں سے مزین تھے، یہ کتب خانے علم وحکمت کے گڑھ، سائنسدانوں کی پناہ گاہ اور علم کی راہیں روشن کرنے والے چراغ تھے۔
ایک خالق پر ایمان نے سائنس دانوں کو کائنات کو ایک باہم مربوط نظام کے طور پر دیکھنے کی ترغیب دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کائنات کا ہر ذرہ تفتیش کا اہل ہو گیا۔ جن چیزوں پر قدیم تہذیبوں میں گفتگو تک حرام تھی، اب وہ بحیثیت مخلوق خالق کو جاننے اور پہچاننے کا ذریعہ بن گئیں۔
صهيب ندوي
[Email: Laahoot.Media@gmail.com]
لاہوت اردو ڈائجسٹ
سوشل میڈیا پر ہم سے جڑیں:
https://www.facebook.com/LaahootUrdu