-
زندگی کی فانی حقیقت کا ادراک ایک طاقتور محرک ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ہمیں مقصد کے ساتھ جینے، وقت کا بہترین استعمال کرنے اور دنیا پر مثبت اثر ڈالنے کے لیے ابھارتا ہے۔
-
جسم فنا ہو جائے گا، مگر خیالات، علم اور فن ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
-
ہم جو کچھ کرتے ہیں، اچھا ہو یا برا، اس کا اثر ہمیشہ رہتا ہے اور دوسروں پر پڑتا ہے۔
-
موت کا احساس زندگی کو ایک نئی جہت دیتا ہے۔ یہ ہماری زندگی کے ہر لمحے کو قیمتی بناتا ہے اور ہمیں اپنی اقدار اور مقاصد کو تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
اک پل کی پلک پر ہے ٹھہری ہوئی یہ دنیا
اک پل کے جھپکنے تک ہر کھیل سہانا ہے
زندگی اور موت، انسان کے وجود کے دو ایسے پہلو ہیں جو ہمیشہ سے فلسفیوں اور شاعروں کو سوچنے پر مجبور کرتے رہے ہیں۔ زندگی، ایک عارضی مہمان کی مانند ہے جو اس کائنات میں کچھ عرصے کے لیے آتی ہے اور پھر چلی جاتی ہے۔ ہماری زندگیاں، پانی کے بلبلوں کی مانند، وجود کے وسیع سمندر میں اٹھتی ہیں اور پھر غائب ہو جاتی ہیں۔ یہ حقیقت ہمیں گہری سوچ میں ڈال سکتی ہے یا ہماری زندگی کو ایک معنی خیز سفر بنا سکتی ہے۔
زندگی کا دھارا مسلسل بہتا رہتا ہے، اور اس بہاؤ میں تبدیلی ہی ایک مستقل حقیقت ہے۔ یہ ایک فلسفی کا قول ہے، جو ہماری زندگیوں کی گہرائیوں میں اترتا ہے۔ جسم، ذہن اور گردِ عالم، سبھی اس لامتناہی تبدیلی کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ رشتے، تعلقات اور حالات، سبھی اس دھارے میں بہہ کر نئے معنی اختیار کرتے ہیں۔ یہ تبدیلی بعض اوقات ہماری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے، اور کبھی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیتی ہے۔
یہی فنا پذیری زندگی کو ایک خوبصورت سفر بناتی ہے۔ زندگی کی محدودیت کا احساس ہمارے ہر لمحے کو قیمتی بناتا ہے۔ یہ ہمیں اپنے عزیزوں کو گلے لگانے، ان کی آنکھوں میں جھانکنے اور ان کے ساتھ خوبصورت لمحات گزارنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ جان کر کہ ہمارا وقت محدود ہے، ہم ہر سانس کو ایک نعمت سمجھتے ہیں اور اسے بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہیں۔
زندگی ایک باغ کی مانند ہے۔ اس باغ کا ہر پھول ایک نئی زندگی ہے۔ یہ پھول ایک دن مرجھا جاتا ہے، لیکن اس کی خوشبو ہوا میں پھیلتی ہی رہتی ہے۔ اسی طرح زندگی بھی ایک دن ختم ہو جاتی ہے لیکن ہمارے اعمال اور خیالات دنیا میں ہمیشہ کے لیے رہ جاتے ہیں۔
تاریخ کے آسمان پر چمکتے ستاروں کی طرح ہیں وہ عظیم لوگ، جن کی روشنی آج بھی ہمیں راہ دکھاتی ہے۔ جانے کتنے سائنسدانوں، فنکاروں، فلسفیوں اور سماجی کارکنوں نے انسانیت کے لیے ایسے چراغ روشن کئے، وہ آج بھی روشن ہیں۔
تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچے نہ بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذر خزاں کیسے کیسے
ایک شمع کی مانند، ہماری مہربانیاں اور نیک کام دوسروں کی زندگیوں میں روشنی پھیلا سکتے ہیں۔ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے کام بھی ایک بڑے تبدیلی کا آغاز بن سکتے ہیں۔ ہر فرد کا نیک سماجی عمل ایک اینٹ کی مانند ہے جو ایک عظیم عمارت بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔
مزید برآں، وہ وراثت جو ہم آئندہ نسلوں کے لیے چھوڑ جاتے ہیں، وہ صرف ہماری کامیابیوں یا کارناموں سے متعلق نہیں ہوتی۔ بلکہ ہماری ان اقدار کا آئینہ دار ہوتی ہے جن پر ہم زندگی بھر عمل پیرا رہتے ہیں، ان تعلقات کا نتیجہ ہوتی ہے جنہیں ہم محبت اور خلوص سے نبھاتے ہیں، اور اس محبت کا ثبوت ہوتی ہے جسے ہم بے لوث انداز میں بانٹتے ہیں۔ اپنے عزیزوں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات، اپنے بچوں کو دیے گئے سبق، اور ان لوگوں پر جو اثرات ہم نے مرتب کیے، یہ سب ناملموس تحفے ہیں جو ہماری وفات کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور ہماری یاد کو ہمیشہ کے لیے تازہ رکھتے ہیں۔
کیا جانے کوئی کس پر کس موڑ پہ کیا بیتے
اس راہ میں اے راہی ہر موڑ بہانا ہے
فناء کا ادراک مایوسی کا باعث نہیں بننا چاہیے، بلکہ یہ مزید کام کرنے پر اکساتا ہے۔ یہ ایک ایسی یاد دہانی ہے جو ہمیں زندگی کی ناپائداری اور ہر لمحہ کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔ ہر لمحہ ایک نیا آغاز ہے، ہر سانس ایک نئی کہانی لکھنے کا موقع ہے۔ ہر ملاقات ایک نیا کینواس ہے۔ یہ ہمیں مقصد اور ارادے سے جینے، اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے اور زندگی کو پرمعنی بنانے کی ترغیب دیتا ہے۔
بے شک، زندگی کا عارضی ہونا ایک تلخ حقیقت ہے، مگر اس حقیقت میں ایک گہری خوبصورتی بھی پوشیدہ ہے۔ یہ حقیقت ہمارے ہر لمحے کو قیمتی بناتی ہے۔ اگر ہم موجودہ لمحے کو اپنی کارگاہ عمل سمجھیں، ارادے کے ساتھ جیئیں اور دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کریں، تو ہم ایک ایسا ورثہ چھوڑ کر جا سکتے ہیں جو ہماری موت کے بعد بھی باقی رہے گا۔ ہماری زندگیاں، ایک تارے کی مانند، ٹمٹماتی ہوئی بجھ جاتی ہیں، لیکن ان کی چمک آسمان کے کینوس پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہے۔
بے ثباتی چمن دہر کی ہے جن پہ کھلی
ہوس رنگ نہ وہ خواہش بو کرتے ہیں
صهيب ندوي
[Email: Contact@Laahoot.com]
لاہوت اردو ڈائجسٹ
سوشل میڈیا پر ہم سے جڑیں:
https://www.facebook.com/LaahootUrdu